Thursday, December 27, 2012

Abu Abdur Rahman Ahmad Nasai ابو عبد الرحمن احمد نسائی



امام ابو عبدالرحمن احمد بن شعیب بن علی بن بحر بن سنان بن دینار نسائی ٢١٥ ھ میں خراسان کے ایک مشہور شہر نَسا میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد پندرہ سال کی عمر میں امام نسائی نے علم حدیث کی تحصیل شروع کی سب سے پہلے وہ قتیبہ بن سعید بلخی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کی خدمت میں ایک سال دو ماہ رہ کر علم حدیث حاصل کیا بعد ازاں دوسرے اساتذہ حدیث کی طرف رجوع کیا۔

امام نسائی بے حد عبادت گذار اور شب بیدار تھے۔ ایک دن روزہ اور ایک دن افطار صوم داؤدی کے طریقہ کو اپنایا ہوا تھا۔ طبیعت اور مزاج میں حد درجہ استغناء تھا اس لیے حکام کی مجلس سے ہمیشہ احتراز کرتے تھے۔ عبادات میں امام نسائی علیہ الرحمة کی کثرت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ حافظ محمد بن مظفر اپنے مشائخ سے روایت کرتے ہیں کہ امام نسائی دن کے وقت میں امیر مصر کے ساتھ جہاد کرتے اور رات ساری عبادت میں گزار دیتے تھے۔ طبعاً فیاض تھے اور مسلمان قیدیوں کو فدیہ دے کر چھڑایا کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی اسوہ رسول اللہ علیہ الصلوٰة والسلام کو اپنائے رکھا۔

امام نسائی نے دور دراز شہروں میں جاکر علم حدیث کا اکتساب کیا اور احادیث کی طلب اور روایت کی خاطر متعدد سفر اختیار کیے۔ جن شہروں میں جاکر آپ نے علم حدیث حاصل کیا ان میں حجاز، عراق ، شام ، خراسان ، مصر اور فلسطین خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ آ پ کا وطن خراسان ہے۔



امام نسائی نے اپنے وقت کے نادر اور یگانہ روزگار مشائخ سے سماع حدیث کا شرف حاصل کیا جن میں ان حضرات کے اسما خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
قتیبہ بن سعید،
اسحاق بن راہویہ،
ہشام بن عمار،
عیسیٰ بن زغبہ،
محمد بننصر مروزی،
ابو کریب،
سوید بن نصر،
محمود بن غیلان،
محمد بن بشار،
علی بن حجر،
ابو داؤد سلیمان بن اشعث
اور ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل البخاری۔

امام نسائی کے تلامذہ کا سلسلہ بھی بہت وسیع ہے متعد شہروں سے کثیر تعداد میں طلبہ آکر آپ سے اکتساب فیض کیا کرتے تھے چند تلامذہ کے اسماء یہ ہیں:

عبدالکریم بن احمد نسائی،
ابوبکر احمد بن محمد بن اسحق ابن انس،
ابو علی الحسن بن الخضر الاسیوطی،
الحسن بن رشیق العسکری،
حافظ ابو القاسم اندلسی،
علی بن ابو جعفر طحاوی،
ابو بکر بن حداد فقیہ،
ابو جعفر عقیلی،
ابو علی بن ہارون حافظ ،
ابو علی نیشا پوری،
ابو القاسم طبرانی۔

امام نسائی علیہ الرحمة نے کثرت مشاغل کے باوجود متعدد کتب تصنیف کی ہیں جن کی تفصیل یہ ہے:

(١) السنن الکبریٰ
(٢) المجتبیٰ
(٣) خصائص علی
(٤) مسند علی
(٥) مسند مالک
(٦) مسند منصور
(٧) فضائل الصحابة
(٨) کتاب التمیز
(٩) کتاب المدلسین
(١٠) کتاب الضعفا
(١١) کتاب الاخوة
(١٢) کتاب الجرح و التعدیل
(١٣) مشیخة النسائی
(١٤) اسماء الرواة
(١٥) مناسک حج

آپ علیہ الرحمة کو جب دمشق کی مسجد میں لوگوں نے زود و کوب کیا تو خدام اٹھا کر آپ کو گھر لے آئے آپ نے فرمایا کہ مجھے فوراً مکہ معظمہ پہنچا دو تاکہ مکہ یا اس کے راستہ میں میرا انتقال ہو جائے چنانچہ مکہ معظمہ پہنچے پر ١٣ صفر ٣٠٣ھ کو آپ کا انتقال ہوگیا وصال کے بعد صفا اور مروہ کے درمیان آپ کو دفن کردیا گیا اور بعض روایات کے مطابق مکہ جاتے ہوئے راستہ میں رملہ (فلسطین) کے مقام پر آپ کا وصال ہوگیا اور وہاں سے آپ کا جسد مبارک مکہ معظمہ پہنچایا گیا۔ (تذکرة المحدثین صفحہ ٢٩٦ ، ٢٩٧ و حالات مصنفین درسِ نظامی صفحہ ١٥٢)


No comments:

Post a Comment